تم جواب ہو کہ سوال ہو، کمال ہو
کوئی خواب ہو کہ خیال ہو، کمال ہو
مجھے گھیر لیتیں موسموں کی سختیاں
برکھا کی رُت ہو، شال ہو، کمال ہو
جی چاہتا ہے رہوں تہہ دام سدا
عافیت کا حصار ہو، جال ہو، کمال ہو
جیت ہے مشروط جس سے لازمی
شطرنج کی وہ چال ہو کمال ہو
حسنِ یوسف کا پرتو ہو کہ بڑھ کر
رُخِ زیبا پہ خال ہو، کمال ہو
تم بلاو اور نعیم نہ آئے
کیا تمہارا حال ہو، کمال ہو