تم سمجھے کسی زعم میں وارے گئے ہیں
خود تو نہیں مرے صاحب ، مارے گئے ہیں
کوئی ہم سے پوچھے اُجڑنا کسے کہتے ہیں
اک اک کرکے جن کے سہارے گئے ہیں
چھوڑ کر اپنی انا، جھکنا سیکھا تھا
پھر بھی ہم نظر سے اتارے گئے ہیں
اب نہ کوئی غم، نہ خوشی کا عالم ہے
ہم رضا کی راہوں پہ وارے گئے ہیں
حیرت ہے جزا مانگ رہے ہیں نعیم
سزا کے طور پر جہاں اُتارے گئے ہیں