اجڑے ہوئے مزاروں سے ڈر لگتا ہے
خاموش غمگساروں سے ڈر لگتا ہے
ہم خاک بشر صحرا نشینوں کو
خوش رنگ نظاروں سے ڈر لگتا ہے
سانسیں ہیں کہ مانگا ہوا زیور
زندگی تیرے قرضداروں سے ڈر لگتا ہے
آغوشِ رسوائی ڈھونڈ رہی ہے تعلق
ٹوٹے ہوئے اعتباروں سے ڈر لگتا ہے
گفتگو بدل لیتے ہیں میرے آنے پر
موقع پرست یاروں سے ڈر لگتا ہے
جانتے ہیں جو تختی پہ لکھا ہے
خوشی کے تہواروں سے ڈر لگتا ہے
خزاں نے بخشے ہیں سوگواری کے پھول
ان شوخ بہاروں سے ڈر لگتا ہے
تیرگی میں بھٹکنا شوق ٹہرا
اُجلی راہگزاروں سے ڈر لگتا ہے
جب چاہے بجانے لگتے ہیں ڈگڈگی
تماش بین سہاروں سے ڈر لگتا ہے
مخالف تو سہمے ہوئے بیٹھے ہیں
نعیم تیرے طرفداروں سے ڈر لگتا ہے