اٹھانے سے پہلے آئینہ بول پڑا ہے
اسکے حق میں میرا چہرہ بول پڑا ہے
اگلی نسل کو کیسے سمجھا پائیں گے لوگ
گمراہی کے حق میں رستہ بول پڑا ہے
دشواری کو لاکھ چھپانا چاہا لیکن
میں چپ تھا پاؤں کا چھالا بول پڑا ہے
لب کشائی کا حشر کیا گا جانتا ہے یہ
فطرت سے مجبور آئینہ بول پڑا ہے
خوبیوں پر تو نعیم سبھی چپ رہے
میرے عیبوں پر تو گونگا بول پڑا ہے
