(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی ایک ایسا جبر ہے جو ہر لمحہ ہم سے کچھ تقاضا کرتا ہے۔ کبھی یہ خوابوں کو سینچنے کا مطالبہ کرتی ہے، تو کبھی خواہشوں کے چراغ گل کرنے کا۔ کبھی یہ صبر اور قناعت کی چادر میں لپٹنے کا درس دیتی ہے، تو کبھی تھکن سے چور قدموں کو ایک اور سفر پر آمادہ ہونے کا حکم دیتی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں وجود دو راہوں پر کھڑا ہوتا ہے—ایک طرف تسلیم کی نرمی ہے، دوسری طرف جہد کی سختی۔ یہ سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ہم اپنی خواہشوں سے دستبردار ہو رہے ہیں یا حقیقت کی سنگینی نے ہمیں بدل دیا ہے۔ یہ کشمکش محض خارجی نہیں، بلکہ داخلی بھی ہے۔ روشنی اور اندھیرا دونوں کے ساتھ آنکھوں کی مانوسیت اتنی یکساں ہو جاتی ہے کہ فرق مٹنے لگتا ہے۔ شور اور سکوت کی سرگوشیاں ایک جیسی سنائی دیتی ہیں، حتیٰ کہ سمندر اور کنارے کی کشش بھی بے معنی لگنے لگتی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو زندگی کے سب سے بڑے سوال کا سامنا ہوتا ہے—
کیا میں نے تسلیم کر لیا، یا میں ہار گیا؟
یہ تسلیم اگر رضامندی کی ہو تو عرفان کا در کھلتا ہے، لیکن اگر شکست کی ہو تو وجود بکھرنے لگتا ہے۔ اور یہی فرق انسان کی راہ متعین کرتا ہے۔
زندگی، بظاہر، ایک مسلسل جنگ ہے—انسان کے اندر اور باہر۔ مگر شاید یہ جنگ جیتنے کے لیے نہیں، بلکہ سمجھنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص روشنی اور اندھیرے کو ایک جیسا محسوس کرنے لگے، جب رونقیں اور تنہائی ہم رنگ ہو جائیں، جب خواب اور حقیقت کی لکیر مدھم ہو جائے—تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سے یا تو فنا شروع ہوتی ہے، یا نروان۔
اصل سوال یہ نہیں کہ ہم خواب ہار رہے ہیں یا خواہشیں کم ہو رہی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم خود کو کھو رہے ہیں، یا پا رہے ہیں؟