وجود و شہود منزل ایک راہیں دو

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کائنات کی وسعتوں میں دو راہرو ہیں—ایک جو خود کو حقیقت میں فنا کر دیتا ہے، اور دوسرا جو حقیقت کو اپنے وجود کے دریچوں سے دیکھتا ہے۔ ایک کے لیے ہر شے ایک ہی حقیقت کا پرتو ہے، اور دوسرے کے لیے حقیقت ایک آئینے میں نمودار ہونے والی عکاس صورتوں کی طرح ہے۔

وجودی صوفی وہ ہے جو کہتا ہے:
“سب کچھ وہی ہے، اور وہی سب کچھ ہے۔”
یہ ایک دریا ہے جس میں ہر موج اسی دریا کا حصہ ہے۔ بوند جب دریا میں گرتی ہے تو وہ بوند نہیں رہتی، وہ خود دریا ہو جاتی ہے۔ ایسے صوفی کے لیے عالم محوِ وجودِ مطلق میں ہے—یہاں کثرت کی گنجائش نہیں، صرف وحدت ہے۔

دوسری طرف شہودی صوفی وہ ہے جو دیکھنے والے کا تذکرہ کرتا ہے۔
“ہر شے اُس کے نور کا عکس ہے، مگر عکس، اصل نہیں۔”
یہ ایک چاندنی رات ہے جہاں جھیل کی سطح پر چاند کا عکس جھلملاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ عکس حقیقت کا پرتو ہے، مگر حقیقت نہیں۔ وہ دیکھنے کے عمل میں ڈوبا ہے، وہ ہر شے میں اُسی کی جھلک دیکھتا ہے، مگر فرق کو برقرار رکھتا ہے۔

وجودی صوفی کہتا ہے کہ میں قطرہ تھا، سمندر میں گرا تو سمندر ہو گیا۔
شہودی صوفی کہتا ہے کہ میں قطرہ ہوں، مگر اپنے وجود سے سمندر کو پہچان سکتا ہوں۔

یہ دو راستے ہیں، ایک میں فنا کی سرشاری ہے، دوسرے میں بقا کا شعور۔ ایک میں وصال کی مستی ہے، دوسرے میں فراق کی تڑپ۔ مگر دونوں کا سفر اسی حقیقت کی جانب ہے، جسے جاننے کے بعد نہ وجودی کچھ کہتا ہے، نہ شہودی—کیونکہ الفاظ وہاں تھم جاتے ہیں، اور حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top