وحشتِ شب میں اک منظر جاگ رہا ہے
میں سو رہا ہوں مگر گھر جاگ رہا ہے
مری بند آنکھوں کے پتھر توڑ کر دیکھو
مرے اندر گہرا سمندر جاگ رہا ہے
گہری نیند سو چکا ہے ہر فرد ہجوم کا
خون میں تر مگر ہر پتھر جاگ رہا ہے
ہر سسکتی پرچھائی پہ نظر ہے اُس کی
خوں آلود فضا میں معلق خنجر جاگ رہا ہے
دکھاؤں تجھے نعیم کُن سے پہلے کا منظر
مردہ کھنکتی مٹی میں صبر جاگ رہا ہے