وہ جو دل کی گلی سے گزرے ہیں

غزل

وہ جو دل کی گلی سے گزرے ہیں
تیرے خیال اجنبی سے گزرے ہیں

عذابِ قبر سے ڈراتا ہے واعظ اُن کو
آشفتہ سر جو عذابِ زندگی سے گزرے ہیں

جی آیاں کہہ رہی ہے خُلدِ بریں اُن کو
وہ جو مقامِ بندگی سے گزرے ہیں

تماشہ سا بنے بیٹھے ہیں چوراہے میں
تیرے مشغلہء دل لگی سے گزرے ہیں

کب پار اتارتے ہیں کچّے ہوں کہ پکّے
گھڑے جو دستِ بےہنری سے گزرے ہیں

تیری گلی کے پتھروں نے منائی ہے ہولی
ہم اس درجہ بے بسی سے گزرے ہیں

پاء برہنہ نہ خبر آنچل کی رہی
کیوں اس درجہ بے صبری سے گزرے ہیں

کس نے کہا تھا آنکھوں میں گھر کرو
آج شکوہ کہ حوادثِ نمی سے گزرے ہیں

شہر بھر کی دیواروں پہ لکھے گئے نعیم
ہم اپنے طور بے خبری سے گزرے ہیں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top