وہ مجھے خود تک رسائی کیوں نہیں دیتا
میرا ہے تو پھر دکھائی کیوں نہیں دیتا
لوگ جو کہتے ہیں سنتا تو وہ بھی ہو گا
ایسا نہیں ہے تو صفائی کیوں نہیں دیتا
ہجر کے بیلے کا میں بھی رانجھا ہوں
مجھ کو یادوں کی چرائی کیوں نہیں دیتا
گورکنوں کا احتجاج جاری ہے
کہہ رہے ہیں مردہ کھدائی کیوں نہیں دیتا
قیامت اٹھا رکھی ہے چپ کے شور نے
تو بہرہ ہے نعیم سنائی کیوں نہیں دیتا