یار سے کیا گنتی؟

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

(قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر و تسبیح کا مفہوم)

اللہ کا ذکر، تسبیح، استغفار یہ سب بندے کی محبت اور تعلقِ عبد و معبود کا اظہار ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یار سے گنتی کیسی؟
جب محبت سچی ہو، جب دل کسی کے عشق میں ڈوب چکا ہو، تو کیا محبوب کے ذکر کی کوئی حد مقرر کی جا سکتی ہے؟
یہ دنیا عدد، حساب اور پیمانے میں جکڑی ہوئی ہے۔ لیکن عشق اور گنتی ایک ساتھ نہیں چل سکتے! جب محبت کی تڑپ جاگتی ہے، تو ہر سانس ذکر بن جاتا ہے، ہر لمحہ تسبیح میں ڈھل جاتا ہے۔

قرآنِ مجید میں بے شمار آیات ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اللہ کا ذکر کسی گنتی میں محدود نہیں بلکہ یہ دل کی کیفیت اور مسلسل تعلق کا نام ہے:
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ” (الجمعہ: 10)
“اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”
یہاں “کثرت” کا ذکر ہے، کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی! یعنی ذکر وہی ہے جو شمار سے آزاد ہو، جہاں محبت کی وسعت اتنی ہو کہ گننا بےمعنی لگے۔
وَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ” (الاعراف: 205)
“اور غافلوں میں شامل نہ ہو جانا۔”
اللہ کے ذکر کو گننے والے کبھی کبھی ذکر کو محدود کر دیتے ہیں، جبکہ حقیقی ذکر وہی ہے جو ہر لمحہ جاری رہے، جو غفلت سے نجات دلائے!
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ” (البقرہ: 152)
“تم میرا ذکر کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔”
یہ تعلق دو طرفہ ہے، یہ کوئی سودا نہیں جہاں مخصوص تعداد کے بعد بدلہ ملے، بلکہ یہ عاشق و معشوق کا رشتہ ہے جو مسلسل جڑا رہتا ہے!
نبی کریم ﷺ کی سنت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کا ذکر کسی تعداد کا محتاج نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل کیفیت ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ” (ترمذی)
“سب سے اعلیٰ ذکر ‘لا الہ الا اللہ’ ہے۔”
کیا کسی نے کہا کہ دن میں صرف 100 بار؟ یا 33 بار؟ نہیں! یہ وہ ذکر ہے جو عاشق کے دل میں مسلسل گونجتا ہے، جسے گنتی میں قید نہیں کیا جا سکتا!

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
كانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ” (مسلم)
“رسول اللہ ﷺ ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔”
یعنی ذکر کا مطلب مخصوص اوقات میں مخصوص تعداد نہیں، بلکہ ہر لمحہ اور ہر کیفیت میں اللہ کی یاد رکھنا ہے!
استغفار کی اصل روح یہ ہے کہ وہ کیفیت بن جائے، نہ کہ صرف مخصوص الفاظ کی محدود گنتی!

صوفیا کرام فرماتے ہیں:
“اصل تسبیح وہ ہے جو دل میں گونجے، نہ کہ صرف انگلیوں پر گنی جائے!”
حضرت مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
“ذکر کی تاثیر تب ہوتی ہے جب زبان کے ساتھ روح بھی پکارے!”
اور حافظ شیرازیؒ تو محبت کی معراج کو یوں بیان کرتے ہیں:
عاشق تو، روزِ شمار این جا خطا باشد
چون عاشقی حساب نداند، ثواب باشد
“اگر تُو سچا عاشق ہے، تو یہاں گنتی کا سوال ہی غلط ہے!
کیونکہ جو سچا عاشق ہوتا ہے، وہ حساب نہیں رکھتا، اور یہی اس کے عشق کی سب سے بڑی سچائی ہے!”
یہی وہ کیفیت ہے جس میں حضرت بلالؓ کو جلتی ریت پر لٹایا گیا، کوڑے مارے گئے، مگر وہ گنتی میں نہیں پڑے، بلکہ صرف ‘احدٌ احدٌ’ پکارا!
یہی وہ عشق ہے جس میں مولانا رومؒ کہتے ہیں:
من نہ منم، نہ من منم، من تو شدم، تو من شدی
در من دمیدی و من زنده شدم، پس تو بمان، من نمانم
“نہ میں میں رہا، نہ میں اپنی ہستی میں باقی رہا، میں تُو بن گیا، اور تُو مجھ میں سما گیا۔

تُو نے مجھ میں اپنی روح پھونکی، اور میں حقیقت میں زندہ ہو گیا، اب تُو باقی رہ، میں تو مٹ چکا!”
تسبیح کا اصل مفہوم
یار سے کیا گنتی؟
جب دل کا ہر لمحہ اللہ کے ذکر میں ہو؟
جب ہر سانس میں محبوب کا نام گونجتا ہو؟
جب ہر دھڑکن “اللہ، اللہ” پکارتی ہو؟
یہی وہ ذکر ہے جسے اللہ کے عاشق گنتے نہیں، جیتے ہیں!
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب (الرعد: 28)
“سن لو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے!”

تو کیا کوئی عاشق محبوب کے سکون کو محدود کر سکتا ہے؟
محبت کا ذکر وہی ہے جو ہر لمحہ جاری رہے!
“یار سے گنتی؟ جب خود کو فنا کر دینا ہی اصل تسبیح ٹھہرے!”
اللہ ہمیں وہ ذکر عطا کرے جو محض زبان سے نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے اٹھے! آمین!

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top