(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
صوفیانہ تجزیہ
یار تو وہ مقام ہے جہاں نہ عدد کا وجود باقی رہتا ہے، نہ پیمائش کی حاجت رہتی ہے۔ یہ سوال صرف دنیا کے سوداگر پوچھتے ہیں، جو محبت کو سود و زیاں کے ترازو پر تولتے ہیں۔ مگر عشق کے مسافر جب محبوب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو ہر گنتی تحلیل ہو جاتی ہے، ہر پیمائش مٹ جاتی ہے۔ وہاں صرف ایک خاموش گونج رہتی ہے۔۔۔ فنا کی!
محبت وہ سرمدی نغمہ ہے جو فرشتوں کے ورد سے بھی بڑھ کر بلند ہے۔ یہ وہ الوہی سرور ہے جو عقل کی بندشوں کو توڑ کر روح کو لامحدود وسعتوں میں لے جاتا ہے۔ محبت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا، کیونکہ یہ وہ راز ہے جو عدد کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ عشق کا ہر لمحہ وقت کے ترازو سے باہر ہے، ہر جذبہ انسانی فہم سے ماورا ہے۔
حافظ شیرازیؒ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عاشق تو، روزِ شمار این جا خطا باشد
چون عاشقی حساب نداند، ثواب باشد
“اگر تُو سچا عاشق ہے، تو یہاں گنتی کا سوال ہی غلط ہے!
کیونکہ جو سچا عاشق ہوتا ہے، وہ حساب نہیں رکھتا، اور یہی اس کے عشق کی سب سے بڑی سچائی ہے!”
یار وہ وسعت ہے جو کسی دائرے میں قید نہیں ہو سکتی۔ جہاں پیمائش کا تصور ہو، وہاں عشق کا قدم کیسا؟ عشق تو وہ بحرِ بے کنار ہے جس میں وہی داخل ہو سکتا ہے جو اپنی ہستی کی کشتی خود ڈبو دے اور ساحل کی امید کو کفر جانے۔ دنیا والے تعلق کو ترازوں میں تولتے ہیں، چاہنے کا صلہ مانگتے ہیں، مگر عشق کے سرمست وہ لوگ ہیں جو محبوب کی دہلیز پر اپنا آپ رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ وہ کبھی تھے بھی یا نہیں!
یہی وہ مقام ہے جہاں عاشق اور محبوب کی حدیں مٹ جاتی ہیں، جہاں وجود فنا ہو کر حقیقتِ بقا میں ضم ہو جاتا ہے۔ مولانا رومؒ اسی کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں:
من نہ منم، نہ من منم، من تو شدم، تو من شدی
در من دمیدی و من زنده شدم، پس تو بمان، من نمانم
“نہ میں میں رہا، نہ میں اپنی ہستی میں باقی رہا، میں تُو بن گیا، اور تُو مجھ میں سما گیا۔
تُو نے مجھ میں اپنی روح پھونکی، اور میں حقیقت میں زندہ ہو گیا، اب تُو باقی رہ، میں تو مٹ چکا!”
یہی وہ فنا ہے جو حقیقت کی طرف لے جاتی ہے، یہی وہ قرب ہے جہاں سوال مٹ جاتے ہیں، جواب فنا ہو جاتے ہیں، اور صرف محبوب کی چاہ باقی رہتی ہے۔
امیر خسروؒ اسی کیفیت کو مزید گہرائی میں لے جا کر یوں بیان کرتے ہیں:
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
“میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔
پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے!”
یہی وہ عشق ہے جہاں ہستی تحلیل ہو کر محبوب میں ضم ہو جاتی ہے، جہاں عاشق اور معشوق کے درمیان کوئی دیوار باقی نہیں رہتی، جہاں “میں” اور “تو” کا فرق مٹ جاتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو آزمایا، تو انہوں نے کوئی حساب کتاب نہیں کیا۔ جب حضرت اسماعیلؑ نے قربانی کے لیے گردن جھکا دی، تو انہوں نے نفع و نقصان کا سوال نہیں کیا۔ کیونکہ یار سے گنتی نہیں کی جاتی!
اسی طرح، جب سیدنا بلال حبشیؓ کو جلتی ریت پر لٹایا گیا، جب ان کے جسم پر کوڑے برسائے گئے، جب ظلم کی انتہا کر دی گئی، تو وہ گنتی میں نہیں پڑے، کوئی حساب نہیں لگایا کہ کتنے زخم ملے، کتنی تکلیف ہوئی، بلکہ صرف ایک ہی صدا بلند کی:
“!احدٌ احدٌ”
یہی عشق کا وہ مقام ہے جہاں نہ درد کا حساب رکھا جاتا ہے، نہ قربانی کا شمار ہوتا ہے، نہ سوال باقی رہتے ہیں، نہ دنیا کی کسی شے کا اختیار بچتا ہے۔
منصور حلاج نے جب “انا الحق” کہا، تو وہ دار پر چڑھا دیے گئے، مگر جو اس راز کو جان گئے، وہ جان گئے کہ عاشق اور محبوب کے درمیان کوئی حد باقی نہیں رہتی۔ وہ جان گئے کہ جب محبت بے لوث ہو، جب عشق سود و زیاں سے آزاد ہو، جب عاشق کا ہر لمحہ محبوب کے لیے ہو، تبھی عشق کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں صوفی سوال کرتا ہے:
“یار سے کیا گنتی؟”
اگر محبت کی گنتی ممکن ہوتی،
تو فرہاد پہاڑ نہ کاٹتا، رومی شمسؒ پر فدا نہ ہو جاتا!
محبت کا تقاضا ہے کہ عاشق سود و زیاں کا سوال نہ کرے۔ اگر وہ گنتی میں پڑ گیا، تو عشق کا راستہ اس پر بند ہو جائے گا۔ اللہ کے ولی، انبیا، صوفیا سب ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ محبت میں حساب کتاب نہیں، سوال و جواب نہیں، صرف فنا ہے، صرف تسلیم ہے، صرف محبوب کی رضا ہے۔
یار وہ مقام ہے جہاں یاد بھی اپنا وجود کھو دیتی ہے، جہاں نہ خودی بچتی ہے، نہ خواہش باقی رہتی ہے۔ وہاں گنتی کا سوال ہی لاحاصل ہو جاتا ہے۔ عشق کی معراج یہی ہے کہ عاشق خود سے بے خبر ہو جائے، فنا کی ابدی زندگی پا جائے۔
یار سے کیا گنتی؟
جب ہستی کی ہر دیوار گر جائے،
جب خودی کی لاش فنا کے آنگن میں دفن ہو جائے،
جب ہر لمحہ محبوب کی چاہ میں فنا ہو کر بقا پا جائے!
!یہی عشق کی معراج ہے، یہی وہ حقیقت ہے جسے عارف پا گئے۔ جو گنتی میں الجھا، وہ خسارے میں رہا۔ جو فنا ہونے کو تیار ہوا، وہی حق کا رازداں بنا