یادوں کا مقبرہ — جہاں وقت سجدہ ریز ہوتا ہے

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ہر انسان کے دل میں ایک مقبرہ ہوتا ہے،
جو پتھروں سے نہیں،
یادوں سے تعمیر ہوتا ہے۔
ایسا مقبرہ جہاں دفن نہیں کیا جاتا،
بس محفوظ رکھا جاتا ہے —
وہ سب کچھ جو وقت چھین نہیں سکا،
اور تقدیر لکھ نہ سکی۔
یہ یادوں کا مقبرہ
کسی بستی میں نہیں،
تنہائی کے سب سے سنسان گوشے میں ہوتا ہے —
جہاں انسان اکثر خود بھی قدم رکھنے سے ڈرتا ہے۔
کیونکہ یہاں وہ خاموش چیخیں دفن ہیں
جنہیں لفظوں نے کبھی زبان نہ دی،
اور آنکھوں نے کبھی نمائش نہ دی۔
یہاں وہ مسکراہٹیں دفن ہیں
جو کبھی چہروں پر کھلی تھیں
مگر اب صرف خوابوں میں جھلکتی ہیں۔
یہاں وہ مکالمے گونجتے ہیں
جو کہے تو گئے تھے،
مگر سنے نہیں گئے۔
وقت جب تھک جاتا ہے،
تو اسی مقبرے کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے —
گویا معافی مانگتا ہو
اُن لمحوں کا جنہیں وہ بچا نہ سکا۔
اور انسان…
وہ کبھی زائر بن کر
یاد کی ان قبروں پر آنکھوں کی فاتحہ پڑھتا ہے،
تو کبھی خادم بن کر
اُن جذبوں کی رکھوالی کرتا ہے
جو اب فقط گزرے ہوئے کل کی صدائیں ہیں۔
یادوں کا یہ مقبرہ
نہ کبھی پرانا ہوتا ہے
نہ نیا،
یہ ہر لمحے کے اندر سانس لیتا ہے،
جیسے ماضی کا آئینہ
حال کے ہاتھوں میں لرز رہا ہو۔
کبھی یہاں بچپن کی تتلیاں دفن ہیں،
کبھی پہلا پیار،
کبھی کوئی بچھڑا چہرہ،
اور کبھی وہ جملہ جو کبھی کہا نہ جا سکا۔
یادیں مر نہیں جاتیں،
وہ بس مقبرہ بن کر
دل کی زمین پر اگتی رہتی ہیں —
اور ہر بار،
جب روح تنہا ہوتی ہے،
وہ مقبرہ زندہ ہو اٹھتا ہے۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں انسان
اپنے سب سے سچے وجود سے ملتا ہے،
جہاں نہ نقاب ہوتا ہے، نہ نفاق…
بس وہ ہوتا ہے
جو وہ کبھی تھا —
اور شاید اب بھی ہے،
کسی گمشدہ لمحے میں…
کسی خاموش قبر کی طرح۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top