یار کا در ہے، نظر کو جھکانا پڑے گا

غزل

یار کا در ہے، نظر کو جھکانا پڑے گا
گر پلک اٹھے گی تو تازیانہ پڑے گا

چاند تو چاند، ستارے بھی نہیں نکلیں گے
روشنی کے لیے گھر کو جلانا پڑے گا

سر کو اٹھا کے روانہ ہوئے تو ہو، لیکن
ہر قدم پر تمہیں آستانہ پڑے گا

سب امانتیں سونپ کر چل دیے وہ
اب یہ بوجھ مجھے خود اٹھانا پڑے گا

نعیم دل کے چراغوں کو جلانے کے لیے
دردِ ہجر کا ہنر آزمانا پڑے گا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top