یہ کس کے فیض سے دل کا نگر سنور گیا
میں خود سے دور ہوا، اور بھی نکھر گیا
وہ لمحۂ وصال تھا یا وقتِ امتحاں
ترکِ طلب میں ہر خواب سا بکھر گیا
پہنچا جو اُس کے در تو سکون ملا
ہر ایک درد مرے دل سے اُتر گیا
مِلے جو عکس خود کی آنکھ میں مجھے
میں اپنی ذات سے باہر نکل کے ڈر گیا
محبتوں کا سفر، خود سفر میں تھا نعیم
سفر ہی سفر تھا جو بکھر بکھر گیا