یوں بےربط یہ زندگی تو نہ گزارو یارو
آئینہ دیکھ کے کوئی عکس اتارو یارو
لپٹی ہوئی ہے لباسِ شب میں نوید سحر کی
رات کو بس تاریکی سمجھ نہ گزارو یارو
اک درِ یار پہ ہی بٹتی ہے سکون کی خیرات
بن کے گدا اُس در پر صدا مارو یارو
قلبِ سلیم ہی پائے گا قُربِ محمود آخر
دل کے کھنڈر کے در و دیوار سنوارو یارو
پاک رکھو دل اپنا نقشِ دوئی سے تم
مشت اک خاک نفس کے منہ پر مارو یارو
جو دے رہا ہے نعیم صدائے فقیرانہ ایک
بیعت ہو تم جس سے اُسی پہ جاں وارو یارو