ذہنی بیداری:نعمت یا سزا؟

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

زندگی کی پیچیدگیوں کو سطحی انداز میں دیکھنے والے افراد اکثر زیادہ خوش و خرم دکھائی دیتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو ہر حقیقت کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں، عموماً بے چینی، اضطراب اور ذہنی بوجھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ابدی المیہ ہے جو صدیوں سے فلسفیوں، دانشوروں، اور حساس طبیعت رکھنے والے افراد کو دوچار کرتا آیا ہے۔ ذہنی بیداری بلاشبہ روشنی کی مانند ہے، لیکن یہ روشنی کبھی کبھار اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ اس سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، اور یہ شعور کسی نعمت کے بجائے سزا محسوس ہونے لگتا ہے۔

یہ دنیا ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو زندگی کو سطحی انداز میں جیتے ہیں۔ جو زیادہ سوال نہیں کرتے، حالات کو قبول کر لیتے ہیں، اور اپنی دنیاوی ضروریات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کی زندگی پرسکون دکھائی دیتی ہے، کیونکہ وہ حقیقت کے کٹھن پہلوؤں سے بے خبر رہتے ہیں۔ وہ معاشرتی رویوں کی گہرائی میں نہیں جھانکتے، تعلقات کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے، اور اپنی خوشیوں کو ان کی سطحی حالت میں قبول کر لیتے ہیں۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ نظام کے کھوکھلے پن کو دیکھ لیتے ہیں، تعلقات میں موجود منافقت کو محسوس کرتے ہیں، اور انسانی رشتوں کے پیچھے چھپی تلخ حقیقتوں کو پہچان لیتے ہیں۔ وہ مسکراہٹوں میں چھپے دکھ اور خوشیوں میں پوشیدہ دھوکے کو سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے لیے خوشی ایک پیچیدہ سوال بن جاتی ہے، کیونکہ ان کے شعور کی روشنی انہیں دنیا کی اصلیت سے روشناس کرا دیتی ہے۔ ان کے لیے زندگی محض لمحاتی خوشیوں کا مجموعہ نہیں رہتی بلکہ ایک گہری اور تلخ حقیقت بن جاتی ہے۔

ذہنی بیداری، جو بظاہر ایک عظیم نعمت لگتی ہے، اکثر بوجھ بن جاتی ہے۔ ایک شخص جو حقیقت کو جان لیتا ہے، اس کے لیے سادہ زندگی کی خوشیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ وہ خوشی کے کسی لمحے میں ہوتا ہے، تو اس کے ذہن میں انجانی فکر، تلخ یاد، یا مستقبل کی بے یقینی آ گھستی ہے، اور وہ لمحہ اپنی معصومیت کھو بیٹھتا ہے۔ وہ ہنستا تو ہے، لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے ایک گہری سوچ چھپی ہوتی ہے۔

مگر کیا شعور کو ترک کیا جا سکتا ہے؟ کیا انسان ایک بار بیدار ہونے کے بعد دوبارہ غفلت کی نیند میں جا سکتا ہے؟ شاید نہیں۔ جو ایک بار حقیقت کی روشنی دیکھ لے، وہ دوبارہ اندھیروں کو گوارا نہیں کر سکتا۔ شعور کی یہ نعمت، جو بعض اوقات سزا محسوس ہوتی ہے، انسان کو آگے بڑھنے اور اپنے وجود کی گہرائیوں کو سمجھنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کی تلخیوں کو قبول کرنا سیکھ لیتا ہے، مگر اس کا دل ہمیشہ مکمل سکون سے خالی رہتا ہے۔

یہی زندگی کا سب سے بڑا تضاد ہے۔ زیادہ خوش رہنے کے لیے کم جاننا کافی ہے، مگر بہتر زندگی جینے کے لیے زیادہ جاننا ضروری ہے۔ یہ انتخاب ہر فرد کے ہاتھ میں ہے کہ وہ خوشی کو ترجیح دیتا ہے یا شعور کو۔ خوشی ایک آسان راستہ ہے، مگر شعور ایک مشکل لیکن مکمل زندگی کی ضمانت ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ایک سوال اور جنم لیتا ہے۔ کیا ہم بطور معاشرہ ان افراد کے لیے جگہ رکھتے ہیں جو شعور کی جنگ لڑتے ہیں؟ جو اپنی ذہنی بیداری کے ذریعے معاشرے کی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اکثر ان پر سب سے زیادہ تنقید انہی لوگوں کی طرف سے کی جاتی ہے جن کی زندگی کو یہ بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہی انسانی بیداری کا سب سے بڑا چیلنج ہے—اپنے شعور کے بوجھ کو سہتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے امید کا چراغ جلانا۔ یہ سفر مشکل ہے، مگر اسی میں زندگی کے معنی پوشیدہ ہیں۔ شعور کی روشنی کبھی نہ کبھی ان اندھیروں کو مٹا دیتی ہے جو صدیوں سے ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ یہی امید ہمیں بیداری کی روشنی کے ساتھ جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top