زندگی کا سفر تو کٹ چلا
میرا وجود حصوں میں بٹ چلا
سر پہ سورج کی تمنا پوری ہوئی
میرا سایہ بھی مگر گھٹ چلا
خوابوں کی اُڑتی دھول میں
تصور بھی اُس کا اٹ چلا
آیا تھا تشنگی مٹانے کے واسطے
اڑتی ریت دیکھ کر دریا پلٹ چلا
سنوار لے تو اپنا مقدر شوق سے
نعیم آشفتہ سر تو ہٹ چلا