زندانِ آگہی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

علم وہ چراغ نہیں جو صرف روشنی دیتا ہے، یہ ایک ایسی آگ بھی ہے جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے — خواب، تسلیاں، بہانے، اور وہ جھوٹ جن پر انسان نے اپنی خوشی کی بنیاد رکھی ہوتی ہے۔
یہ سفر اُس درخت کی مانند ہے جو زمین سے جڑ تو پکڑ لیتا ہے، مگر آسمان تک پہنچنے کی تمنا میں خود کو تنہا کر بیٹھتا ہے۔ جتنی شاخیں اُگتی ہیں، اتنے ہی سوال پیدا ہوتے ہیں، اور ہر سوال اپنے ساتھ ایک نیا کرب لے آتا ہے۔

جب انسان بے خبر ہوتا ہے، تو زندگی ایک ہموار راستہ لگتی ہے۔ ہر دن کی تکرار میں ایک مانوسیت ہوتی ہے، جیسے پرانے گانوں کی دھیمی دھن۔ مگر شعور کی آنکھ کھل جائے تو وہی دھن شور بن جاتی ہے، اور ہر دن کا چہرہ ایک نیا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے وجود ایک خاموش کمرے میں قید ہو گیا ہو۔ نہ دروازے ہوں، نہ کھڑکیاں — صرف ایک بے سمت خالی پن، جس میں وقت ساکت ہے اور سوچ متحرک۔ انسان ہر طرف سے آزاد نظر آتا ہے، مگر اندر ہی اندر ایک ایسی گرفت میں جکڑا ہوتا ہے جس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔

یہ کیفیت ظاہری تنہائی سے مختلف ہے۔ یہاں ہجوم میں بھی انسان الگ رہتا ہے۔ مسکراہٹوں کے بیچ وہ سوال پلتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔ تعلقات تو رہتے ہیں، مگر ان میں وہ خلوص گم ہو جاتا ہے جسے پہلے دل تسلیم کر لیا کرتا تھا۔

ایسے شعور کے ساتھ جینا سیکھنا ایک نئی ہنر مندی ہے — جیسے شیشے کے فرش پر ننگے پاؤں چلنا، یا آئینے میں جھانک کر اپنی صورت سے بحث کرنا۔ یہاں خامشی آواز سے زیادہ بولتی ہے، اور راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو جاتی ہیں۔

یہ کوئی سادہ بیداری نہیں، بلکہ ایک مسلسل بے چینی ہے۔ جیسے دل کے اندر کوئی دریا ہو، جو کبھی نہیں سُنتا، کبھی نہیں رُکتا، اور کبھی نہیں سوکھتا۔ وہ دریا جو پرسکون سطح کے نیچے اضطراب کی تہیں چھپائے رکھتا ہے، اور کبھی کبھار ایک لہر میں سب کچھ بہا لے جاتا ہے — یقین، ایمان، رشتے، حتیٰ کہ خود پر اعتماد بھی۔

اس کیفیت کا کوئی دروازہ نہیں جس سے باہر نکلا جا سکے، کوئی کھڑکی نہیں جس سے دنیا کو ویسا دیکھا جا سکے جیسا پہلے دیکھتے تھے۔ یہاں جو دیکھتا ہے، وہ اپنی آنکھوں سے نہیں — اپنے زخموں سے دیکھتا ہے۔ اور زخم کبھی منظر کو حسین نہیں دکھاتے۔

ایسے میں جینے کا سلیقہ بدل جاتا ہے۔ انسان کم بولتا ہے، مگر گہرا محسوس کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی باتوں میں جھوٹ کم، بے خبری زیادہ دیکھتا ہے۔ اور شاید اُسے رشک آتا ہے اُن لوگوں پر جو اب بھی ہنس سکتے ہیں، سو سکتے ہیں، مان سکتے ہیں — بغیر کسی سوال کے۔

یہ شعور کا بوجھ ہے — وہ بوجھ جو نظر نہیں آتا، مگر جھکائے رکھتا ہے۔

مگر یہی وہ نکتہ ہے جہاں آگہی، قید نہیں — ایک چُھپی ہوئی آزادی بن جاتی ہے۔
یہ زندان اگرچہ بے در و دیوار ہے، مگر اس کے اندر ایک ایسی آنکھ جاگتی ہے جو دھوکے سے بچا لیتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ آگہی انسان سے معصومیت چھین لیتی ہے،
لیکن اسی کے بدلے اُسے وہ “سمجھ” عطا کرتی ہے جو اسے اندھوں کے ہجوم میں بینا بنا دیتی ہے۔
اور شاید یہی سب سے بڑی نجات ہے —
کہ آدمی اپنے وجود کی سچائی کو جان کر،
خود کو جھوٹے سکون کے بہلاوے سے آزاد کر لے۔

تو ہاں، آگہی کا انتخاب ہر کوئی نہیں کرتا —
لیکن جو کر لیتے ہیں،
وہ بظاہر قید میں ہوتے ہیں،
مگر اصل میں آزاد ہوتے ہیں۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top