زندگی ایک گورکھ دھندہ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

زندگی ایک گورکھ دھندہ ہے، ایک ایسا پیچیدہ جال جس میں حقیقت اور سراب، خواب اور حقیقت، امید اور مایوسی آپس میں یوں گتھم گتھا ہیں کہ اکثر فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکا ہے، مگر جونہی وہ قریب ہوتا ہے، حقیقت ایک نئے زاویے سے اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے، اور وہ پھر سے کسی نئی گتھی میں الجھ جاتا ہے۔

یہ دنیا بھی ایک ایسا ہی سراب ہے۔ کوئی اسے محبت کے پیمانے میں تولتا ہے، تو کوئی طاقت کے ترازو میں، مگر آخر میں ہر راستہ ایک ایسی دھند میں جا نکلتا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کی سرحدیں مدھم پڑ جاتی ہیں۔ یہاں کامیابی بھی دھوکہ ہو سکتی ہے اور ناکامی بھی درحقیقت ایک نئے دروازے کی کنجی ہو سکتی ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جان چکے ہیں، درحقیقت وہ سب سے بڑی ناسمجھی میں مبتلا ہوتے ہیں، اور جو اپنی ناسمجھی کو تسلیم کر لیتے ہیں، وہی اصل حقیقت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔

زندگی کی حقیقت بھی ایسی ہی ہے، جیسے ایک بھول بھلیاں، جہاں راستے بہت ہیں، مگر منزل کا کوئی یقین نہیں۔ ہم سچائی کی تلاش میں نکلتے ہیں، مگر ہر قدم پر نئے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کہیں انا کی دیواریں راستہ روکتی ہیں، کہیں خواہشوں کی سراب ہمیں بھٹکانے لگتی ہے، اور کہیں ماضی کی زنجیریں ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہیں۔ ہر موڑ پر لگتا ہے کہ بس اب سمجھ آگئی، مگر وہی سمجھ ایک نئے ابہام میں بدل جاتی ہے۔

یہی گورکھ دھندہ ہے— ایک ایسی گتھی جسے سلجھانے کی کوشش میں انسان خود الجھتا چلا جاتا ہے۔ شاید اس کا حل یہی ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ یہ دنیا ہمارے مکمل ادراک سے باہر ہے، اور حقیقت وہی ہے جو وقت کے ساتھ خود کو آشکار کرتی ہے۔ بس چلتے رہنا ہے، سیکھتے رہنا ہے، اور اس دھند میں اپنا راستہ خود بناتے جانا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top