(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی ہمیں کبھی یک مشت نہیں ملتی، یہ قسطوں میں تقسیم ہوتی ہے—ہر لمحہ ایک نئی قیمت کے ساتھ، ہر سانس کسی نہ کسی ادھار کی یاد دلاتی ہوئی۔ ہم سب کسی نہ کسی قرض میں جیتے ہیں، کچھ قرض ہمیں وراثت میں ملتے ہیں، کچھ ہم خود اپنے خوابوں کے عوض لیتے ہیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا، مگر زندگی ہمیں خاموشی سے ان کا سود ادا کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔
یہ کیسا سودا ہے جہاں ہر گزرتا دن ایک نیا حساب طلب کرتا ہے؟ ہم نے کب یہ وقت ادھار لیا تھا جو اب بوجھ بن چکا ہے؟ شاید یہ قرض ان خوابوں کا ہے جو ادھورے رہ گئے، ان امیدوں کا جو ٹوٹ گئیں، ان راستوں کا جو نہ مل سکے، اور ان محبتوں کا جو نصیب نہ ہوئیں۔
یہ زندگی ہمیں ہر روز تھوڑا سا کم کر دیتی ہے، جیسے سِکے سے آہستہ آہستہ رنگ مٹتا جاتا ہے، جیسے بارش میں بھیگے کاغذ سے لفظ دھندلا جاتے ہیں، جیسے وقت کے ساتھ چہرے کی جھریاں گواہ بن جاتی ہیں کہ ہر دن کچھ لے کر گیا ہے۔ ہر ہنسی کے ساتھ ایک نیا بوجھ، ہر خواب کے ساتھ ایک نیا نقصان، ہر کامیابی کے ساتھ ایک نئی بےچینی—گویا کچھ بھی مفت نہیں، سب کا کوئی نہ کوئی مول ہے، اور سب کچھ اپنی جگہ قرض ہے۔
کبھی سوچا ہے کہ اگر یہ سود بڑھتا گیا تو اصل رقم کب بچے گی؟ اگر زندگی یونہی قسطوں میں بِکتی رہی تو آخر میں ہمارے ہاتھ میں کیا ہوگا؟ شاید صرف چند کہانیاں، چند ادھورے خواب، اور ایک ایسا حساب جو کبھی مکمل نہ ہو پایا۔
یہی زندگی کا سب سے بڑا فریب ہے—ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جیتے جا رہے ہیں، مگر درحقیقت ہم صرف قرض ادا کر رہے ہیں، اور ایک دن وہ لمحہ آئے گا جب ہم اپنا آخری سِکہ بھی لوٹا کر خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔