Skip to content
Main Menu
پنجابی دوہڑے
پنجابی نظمیں
پنجابی غزلیں
اردو قطعات
اردو نظمیں
اردو غزلیں
اردو غزلیں
میں نے جانا ہے کہاں سمجھ گیا ہے
راستہ قدموں کی زباں سمجھ گیا ہے
داد دینے کا اصول پوچھ رہا تھا
اشعار کا شانِ نزول پوچھ رہا تھا
جو سرِّ دار ہوتا ہے
وہی سردار ہوتا ہے
توڑ دو بے رحم بھوکی زنجیروں کو
کھا جاتی ہیں خوابوں کی تعبیروں کو
قلم قبیلہ ہے روشنی کی مثال
یہ بناتا ہے اندھیروں کو اجال
سبھی در و دیوار بولتے ہیں
مرے اندر مرے یار بولتے ہیں
وحشتِ شب میں اک منظر جاگ رہا ہے
میں سو رہا ہوں مگر گھر جاگ رہا ہے
اسی لئے تو کوئی منظر نہیں بدلتا
چشمہ بدلتا ہے وہ نظر نہیں بدلتا
زندگی تیرے ناز اٹھاتے اٹھاتے
جان سے جاؤں گا آخر جاتے جاتے
بند گلی سے ناطہ توڑنا پڑا
کرائے کا مکان تھا چھوڑنا پڑا
Posts navigation
← پچھلا صفحہ
1
2
3
…
22
اگلا صفحہ →
Scroll to Top